مسجد قرطبہ
ہسپانيہ کی سرزمين ، بالخصوص قرطبہ ميں لکھی گئی
سلسلہ روز و شب ، نقش گر حادثات
سلسلہ روز و شب ، اصل حيات و ممات
سلسلہ روز و شب ، تار حرير دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلہ روز و شب ، ساز ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زيروبم ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے يہ ، مجھ کو پرکھتا ہے يہ
سلسلہ روز و شب ، صيرفی کائنات
تو ہو اگر کم عيار ، ميں ہوں اگر کم عيار
موت ہے تيری برات ، موت ہے ميری برات
تيرے شب وروز کی اور حقيقت ہے کيا
ايک زمانے کی رو جس ميں نہ دن ہے نہ رات
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات ، کار جہاں بے ثبات
اول و آخر فنا ، باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو ، منزل آخر فنا
ہے مگر اس نقش ميں رنگ ثبات دوام
جس کو کيا ہو کسی مرد خدا نے تمام
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حيات ، موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سير ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود اک سيل ہے ، سيل کو ليتاہے تھام
عشق کی تقويم ميں عصررواں کے سوا
اور زمانے بھی ہيں جن کا نہيں کوئی نام
عشق دم جبرئيل ، عشق دل مصطفی
عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پيکر گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام ، عشق ہے کاس الکرام
عشق فقيہ حرم ، عشق امير جنود
عشق ہے ابن السبيل ، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے نغمہ تار حيات
عشق سے نور حيات ، عشق سے نار حيات
اے حرم قرطبہ! عشق سے تيرا وجود
عشق سراپا دوام ، جس ميں نہيں رفت و بود
رنگ ہو يا خشت و سنگ ، چنگ ہو يا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
قطرہ خون جگر ، سل کو بناتا ہے دل
خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود
تيری فضا دل فروز ، ميری نوا سينہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور ، مجھ سے دلوں کی کشود
عرش معلی سے کم سينہ آدم نہيں
گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہر کبود
پيکر نوری کو ہے سجدہ ميسر تو کيا
اس کو ميسر نہيں سوز و گداز سجود
کافر ہندی ہوں ميں ، ديکھ مرا ذوق و شوق
دل ميں صلوہ و درود ، لب پہ صلوہ و درود
شوق مری لے ميں ہے ، شوق مری نے ميں ہے
نغمہ 'اللہ ھو' ميرے رگ و پے ميں ہے
تيرا جلال و جمال ، مرد خدا کی دليل
وہ بھی جليل و جميل ، تو بھی جليل و جميل
تيری بنا پائدار ، تيرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا ميں ہو جيسے ہجوم نخيل
تيرے در و بام پر وادی ايمن کا نور
تيرا منار بلند جلوہ گہ جبرئيل
مٹ نہيں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سر کليم و خليل
اس کی زميں بے حدود ، اس کا افق بے ثغور
اس کے سمندر کی موج ، دجلہ و دنيوب و نيل
اس کے زمانے عجيب ، اس کے فسانے غريب
عہد کہن کو ديا اس نے پيام رحيل
ساقی ارباب ذوق ، فارس ميدان شوق
بادہ ہے اس کا رحيق ، تيغ ہے اس کی اصيل
مرد سپاہی ہے وہ اس کی زرہ 'لا الہ'
سايہ شمشير ميں اس کہ پنہ 'لا الہ'
تجھ سے ہوا آشکار بندہ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپش ، اس کی شبوں کا گداز
اس کا مقام بلند ، اس کا خيال عظيم
اس کا سرور اس کا شوق ، اس کا نياز اس کا ناز
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفريں ، کارکشا ، کارساز
خاکی و نوری نہاد ، بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نياز
اس کی اميديں قليل ، اس کے مقاصد جليل
اس کی ادا دل فريب ، اس کی نگہ دل نواز
نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو
رزم ہو يا بزم ہو ، پاک دل و پاک باز
نقطہ پرکار حق ، مرد خدا کا يقيں
اور يہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
عقل کی منزل ہے وہ ، عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہ آفاق ميں گرمی محفل ہے وہ
کعبہ ارباب فن! سطوت دين مبيں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسيوں کی زميں
ہے تہ گردوں اگر حسن ميں تيری نظير
قلب مسلماں ميں ہے ، اور نہيں ہے کہيں
آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار
حامل ' خلق عظيم' ، صاحب صدق و يقيں
جن کی حکومت سے ہے فاش يہ رمز غريب
سلطنت اہل دل فقر ہے ، شاہی نہيں
جن کی نگاہوں نے کی تربيت شرق و غرب
ظلمت يورپ ميں تھی جن کی خرد راہ بيں
جن کے لہو کے طفيل آج بھی ہيں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط ، سادہ و روشن جبيں
آج بھی اس ديس ميں عام ہے چشم غزال
اور نگاہوں کے تير آج بھی ہيں دل نشيں
بوئے يمن آج بھی اس کی ہواؤں ميں ہے
رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں ميں ہے
ديدہ انجم ميں ہے تيری زميں ، آسماں
آہ کہ صديوں سے ہے تيری فضا بے اذاں
کون سی وادی ميں ہے ، کون سی منزل ميں ہے
عشق بلا خيز کا قافلہ سخت جاں
ديکھ چکا المنی ، شورش اصلاح ديں
جس نے نہ چھوڑے کہيں نقش کہن کے نشاں
حرف غلط بن گئی عصمت پير کنشت
اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں
چشم فرانسيس بھی ديکھ چکی انقلاب
جس سے دگرگوں ہوا مغربيوں کا جہاں
ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پير
لذت تجديد سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
روح مسلماں ميں ہے آج وہی اضطراب
راز خدائی ہے يہ ، کہہ نہيں سکتی زباں
ديکھيے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کيا
گنبد نيلو فری رنگ بدلتا ہے کيا
وادی کہسار ميں غرق شفق ہے سحاب
لعل بدخشاں کے ڈھير چھوڑ گيا آفتاب
سادہ و پرسوز ہے دختر دہقاں کا گيت
کشتی دل کے ليے سيل ہے عہد شباب
آب روان کبير! تيرے کنارے کوئی
ديکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردہ تقدير ميں
ميری نگاہوں ميں ہے اس کی سحر بے حجاب
وادا لکبير، قرطبہ کا مشہور دريا جس کے قريب ہی مسجد قرطبہ واقع ہے
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ ميری نواؤں کی تاب
جس ميں نہ ہو انقلاب ، موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حيات کشمکش انقلاب
صورت شمشير ہے دست قضا ميں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہيں سب ناتمام خون جگر کے بغير
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغير
ہسپانيہ کی سرزمين ، بالخصوص قرطبہ ميں لکھی گئی
سلسلہ روز و شب ، نقش گر حادثات
سلسلہ روز و شب ، اصل حيات و ممات
سلسلہ روز و شب ، تار حرير دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلہ روز و شب ، ساز ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زيروبم ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے يہ ، مجھ کو پرکھتا ہے يہ
سلسلہ روز و شب ، صيرفی کائنات
تو ہو اگر کم عيار ، ميں ہوں اگر کم عيار
موت ہے تيری برات ، موت ہے ميری برات
تيرے شب وروز کی اور حقيقت ہے کيا
ايک زمانے کی رو جس ميں نہ دن ہے نہ رات
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات ، کار جہاں بے ثبات
اول و آخر فنا ، باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو ، منزل آخر فنا
ہے مگر اس نقش ميں رنگ ثبات دوام
جس کو کيا ہو کسی مرد خدا نے تمام
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حيات ، موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سير ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود اک سيل ہے ، سيل کو ليتاہے تھام
عشق کی تقويم ميں عصررواں کے سوا
اور زمانے بھی ہيں جن کا نہيں کوئی نام
عشق دم جبرئيل ، عشق دل مصطفی
عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پيکر گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام ، عشق ہے کاس الکرام
عشق فقيہ حرم ، عشق امير جنود
عشق ہے ابن السبيل ، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے نغمہ تار حيات
عشق سے نور حيات ، عشق سے نار حيات
اے حرم قرطبہ! عشق سے تيرا وجود
عشق سراپا دوام ، جس ميں نہيں رفت و بود
رنگ ہو يا خشت و سنگ ، چنگ ہو يا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
قطرہ خون جگر ، سل کو بناتا ہے دل
خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود
تيری فضا دل فروز ، ميری نوا سينہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور ، مجھ سے دلوں کی کشود
عرش معلی سے کم سينہ آدم نہيں
گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہر کبود
پيکر نوری کو ہے سجدہ ميسر تو کيا
اس کو ميسر نہيں سوز و گداز سجود
کافر ہندی ہوں ميں ، ديکھ مرا ذوق و شوق
دل ميں صلوہ و درود ، لب پہ صلوہ و درود
شوق مری لے ميں ہے ، شوق مری نے ميں ہے
نغمہ 'اللہ ھو' ميرے رگ و پے ميں ہے
تيرا جلال و جمال ، مرد خدا کی دليل
وہ بھی جليل و جميل ، تو بھی جليل و جميل
تيری بنا پائدار ، تيرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا ميں ہو جيسے ہجوم نخيل
تيرے در و بام پر وادی ايمن کا نور
تيرا منار بلند جلوہ گہ جبرئيل
مٹ نہيں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سر کليم و خليل
اس کی زميں بے حدود ، اس کا افق بے ثغور
اس کے سمندر کی موج ، دجلہ و دنيوب و نيل
اس کے زمانے عجيب ، اس کے فسانے غريب
عہد کہن کو ديا اس نے پيام رحيل
ساقی ارباب ذوق ، فارس ميدان شوق
بادہ ہے اس کا رحيق ، تيغ ہے اس کی اصيل
مرد سپاہی ہے وہ اس کی زرہ 'لا الہ'
سايہ شمشير ميں اس کہ پنہ 'لا الہ'
تجھ سے ہوا آشکار بندہ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپش ، اس کی شبوں کا گداز
اس کا مقام بلند ، اس کا خيال عظيم
اس کا سرور اس کا شوق ، اس کا نياز اس کا ناز
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفريں ، کارکشا ، کارساز
خاکی و نوری نہاد ، بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نياز
اس کی اميديں قليل ، اس کے مقاصد جليل
اس کی ادا دل فريب ، اس کی نگہ دل نواز
نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو
رزم ہو يا بزم ہو ، پاک دل و پاک باز
نقطہ پرکار حق ، مرد خدا کا يقيں
اور يہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
عقل کی منزل ہے وہ ، عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہ آفاق ميں گرمی محفل ہے وہ
کعبہ ارباب فن! سطوت دين مبيں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسيوں کی زميں
ہے تہ گردوں اگر حسن ميں تيری نظير
قلب مسلماں ميں ہے ، اور نہيں ہے کہيں
آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار
حامل ' خلق عظيم' ، صاحب صدق و يقيں
جن کی حکومت سے ہے فاش يہ رمز غريب
سلطنت اہل دل فقر ہے ، شاہی نہيں
جن کی نگاہوں نے کی تربيت شرق و غرب
ظلمت يورپ ميں تھی جن کی خرد راہ بيں
جن کے لہو کے طفيل آج بھی ہيں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط ، سادہ و روشن جبيں
آج بھی اس ديس ميں عام ہے چشم غزال
اور نگاہوں کے تير آج بھی ہيں دل نشيں
بوئے يمن آج بھی اس کی ہواؤں ميں ہے
رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں ميں ہے
ديدہ انجم ميں ہے تيری زميں ، آسماں
آہ کہ صديوں سے ہے تيری فضا بے اذاں
کون سی وادی ميں ہے ، کون سی منزل ميں ہے
عشق بلا خيز کا قافلہ سخت جاں
ديکھ چکا المنی ، شورش اصلاح ديں
جس نے نہ چھوڑے کہيں نقش کہن کے نشاں
حرف غلط بن گئی عصمت پير کنشت
اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں
چشم فرانسيس بھی ديکھ چکی انقلاب
جس سے دگرگوں ہوا مغربيوں کا جہاں
ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پير
لذت تجديد سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
روح مسلماں ميں ہے آج وہی اضطراب
راز خدائی ہے يہ ، کہہ نہيں سکتی زباں
ديکھيے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کيا
گنبد نيلو فری رنگ بدلتا ہے کيا
وادی کہسار ميں غرق شفق ہے سحاب
لعل بدخشاں کے ڈھير چھوڑ گيا آفتاب
سادہ و پرسوز ہے دختر دہقاں کا گيت
کشتی دل کے ليے سيل ہے عہد شباب
آب روان کبير! تيرے کنارے کوئی
ديکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردہ تقدير ميں
ميری نگاہوں ميں ہے اس کی سحر بے حجاب
وادا لکبير، قرطبہ کا مشہور دريا جس کے قريب ہی مسجد قرطبہ واقع ہے
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ ميری نواؤں کی تاب
جس ميں نہ ہو انقلاب ، موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حيات کشمکش انقلاب
صورت شمشير ہے دست قضا ميں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہيں سب ناتمام خون جگر کے بغير
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغير
No comments:
Post a Comment