صدائے درد
جل رہا ہوں کل نہيں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محيط آب گنگا تو مجھے
سرزميں اپنی قيامت کی نفاق انگيز ہے
وصل کيسا ، ياں تو اک قرب فراق انگيز ہے
بدلے يک رنگی کے يہ نا آشنائی ہے غضب
ايک ہی خرمن کے دانوں ميں جدائی ہے غضب
جس کے پھولوں ميں اخوت کی ہوا آئی نہيں
اس چمن ميں کوئی لطف نغمہ پيرائی نہيں
لذت قرب حقيقی پر مٹا جاتا ہوں ميں
اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں ميں
دانہ خرمن نما ہے شاعر معجز بياں
ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں
حسن ہو کيا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو جلنے سے کيا مطلب جو محفل ہی نہ ہو
ذوق گويائی خموشی سے بدلتا کيوں نہيں
ميرے آئينے سے يہ جوہر نکلتا کيوں نہيں
کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے
پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پيکار نے
No comments:
Post a Comment