Dr. Allama Muhammad Iqbal is the national poet of Pakistan. He was born on 9th November, 1877. This blog is about the life and poetry of Allama Iqbal. This Blog has the poerty of Iqbal in Urdu, Roman Urdu and English translation.

Friday 18 May 2012

Jawab e Shikwa

جواب شکوہ

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہيں' طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے' رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے ، گردوں پہ گزر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گرو سرکش و چالاک مرا
آسماں چير گيا نالہ بے باک مرا

پير گردوں نے کہا سن کے' کہيں ہے کوئی
بولے سيارے' سر عرش بريں ہے کوئی
چاند کہتا تھا' نہيں! اہل زميں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی' پوشيدہ يہيں ہے کوئی

کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

تھی فرشتوں کو بھی حيرت کہ يہ آواز ہے کيا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہيں يہ راز ہے کيا
تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کيا
آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کيا

غافل آداب سے سکان زميں کيسے ہيں
شوخ و گستاخ يہ پستی کے مکيں کيسے ہيں

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک' يہ وہی آدم ہے
عالم کيف ہے' دانائے رموز کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سليقہ نہيں نادانوں کو

آئی آواز' غم انگيز ہے افسانہ ترا
اشک بے تاب سے لبريز ہے پيمانہ ترا
آسماں گير ہوا نعرئہ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دل ديوانہ ترا

شکر شکوے کو کيا حسن ادا سے تو نے
ہم سخن کر ديا نبدوں کو خدا سے تو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہيں' کوئی سائل ہی نہيں
راہ دکھلائيں کسے' رہر و منزل ہی نہيں
تربيت عام تو ہے' جوہر قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی' يہ وہ گل ہی نہيں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی ديتے ہيں
ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھی نئی ديتے ہيں

ہاتھ بے زور ہيں' الحاد سے دل خوگر ہيں
امتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
بت شکن اٹھ گئے' باقی جو رہے بت گر ہيں
تھا براہيم پدر اور پسر آزر ہيں

بادہ آشام نئے ، بادہ نيا' خم بھی نئے
حرم کعبہ نيا' بت بھی نئے' تم بھی نئے

وہ بھی دن تھے کہ يہی مايہ رعنائی تھا
نازش موسم گل لالہ صحرائی تھا
جو مسلمان تھا' اللہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمھارا يہی ہرجائی تھا

کسی يکجائی سے اب عہد غلامی کر لو
ملت احمد مرسل کو مقامی کو لو

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بيداری ہے
ہم سے کب پيار ہے! ہاں نيند تمھيں پياری ہے
طبع آزاد پہ قيد رمضاں بھاری ہے
تمھی کہہ دو يہی آئين و فاداری ہے؟

قوم مذہب سے ہے' مذہب جو نہيں' تم بھی نہيں
جذب باہم جو نہيں' محفل انجم بھی نہيں

جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن' تم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن، تم ہو
بجلياں جس ميں ہوں آسودہ' وہ خرمن تم ہو
بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے

صفحہ دہرئے سے باطل کو مٹايا کس نے؟
نوع انساں کو غلامی سے چھڑايا کس نے؟
ميرے کعبے کو جبينوں سے بسايا کس نے؟
ميرے قرآن کو سينوں سے لگايا کس نے؟

تھے تو آبا وہ تھارے ہی' مگر تم کيا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

کيا کہا ! بہر مسلماں ہے فقط وعدہ حور
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئيں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

تم ميں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہيں
جلوئہ طور تو موجود ہے' موسی ہی نہيں

منفعت ايک ہے اس قوم کی' نقصان بھی ايک
ايک ہی سب کا نبی' دين بھی' ايمان بھی ايک
حرم پاک بھی' اللہ بھی' قرآن بھی ايک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک

فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کی يہي باتيں ہيں

کون ہے تارک آئين رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار؟

قلب ميں سوز نہيں' روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں

جاکے ہوتے ہيں مساجد ميں صف آرا' تو غريب
زحمت روزہ جو کرتے ہيں گوارا ، تو غريب
نام ليتا ہے اگر کوئی ہمارا' تو غريب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمھارا' تو غريب

امرا نشہ دولت ميں ہيں غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بيضا غربا کے دم سے

واعظ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گيا ، تلقين غزالی نہ رہی

مسجديں مرثيہ خواں ہيں کہ نمازی نہ رہے
يعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

شور ہے، ہو گئے دنيا سے مسلماں نابود
ہم يہ کہتے ہيں کہ تھے بھی کہيں مسلم موجود
وضع ميں تم ہو نصاری تو تمدن ميں ہنود
يہ مسلماں ہيں! جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہود

يوں تو سيد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھی ہو

دم تقرير تھی مسلم کی صداقت بے باک
عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک
شجر فطرت مسلم تھا حيا سے نم ناک
تھا شجاعت ميں وہ اک ہستی فوق الادراک

خود گدازی نم کيفيت صہبايش بود
خالی از خويش شدن صورت مينايش بود

ہر مسلماں رگ باطل کے ليے نشتر تھا
اس کے آئينۂ ہستی ميں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمھيں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بيٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل ميراث پدر کيونکر ہو

ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! يہ انداز مسلمانی ہے
حيدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحانی ہے؟

وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم
تم خطاکار و خطابيں، وہ خطا پوش و کريم
چاہتے سب ہيں کہ ہوں اوج ثريا پہ مقيم
پہلے ويسا کوئی پيدا تو کرے قلب سليم

تخت فغفور بھی ان کا تھا، سرير کے بھی
يونہی باتيں ہيں کہ تم ميں وہ حميت ہے بھی؟

خودکشی شيوہ تمھارا، وہ غيور و خود دار
تم اخوت سے گريزاں، وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

اب تلک ياد ہے قوموں کو حکايت ان کی
نقش ہے صفحہ ہستی پہ صداقت ان کی

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت ميں برہمن بھی ہوئے
شوق پرواز ميں مہجور نشيمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں ، دين سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذيب نے ہر بند سے آزاد کيا
لا کے کعبے سے صنم خانے ميں آباد کيا

قيس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا ، باديہ پيما نہ رہے
وہ تو ديوانہ ہے، بستی ميں رہے يا نہ رہے
يہ ضروری ہے حجاب رخ ليلا نہ رہے

گلہ جور نہ ہو ، شکوئہ بيداد نہ ہو
عشق آزاد ہے ، کيوں حسن بھی آزاد نہ ہو

عہد نو برق ہے ، آتش زن ہر خرمن ہے
ايمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوام کہن ايندھن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پيراہن ہے

آج بھی ہو جو براہيم کا ايماں پيدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پيدا

ديکھ کر رنگ چمن ہو نہ پريشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخيں ہيں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خون شہدا کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا ديکھ تو عنابی ہے
يہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

امتيں گلشن ہستی ميں ثمر چيدہ بھی ہيں
اور محروم ثمر بھی ہيں، خزاں ديدہ بھی ہيں
سينکڑوں نخل ہيں، کاہيدہ بھی، باليدہ بھی ہيں
سينکڑوں بطن چمن ميں ابھی پوشيدہ بھی ہيں

نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے يہ سينکڑوں صديوں کی چمن بندی کا

پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تيرا
تو وہ يوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تيرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ويراں تيرا
غير يک بانگ درا کچھ نہيں ساماں تيرا

نخل شمع استي و درشعلہ دود ريشہ تو
عاقبت سوز بود سايہ انديشہ تو

تو نہ مٹ جائے گا ايران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہيں پيمانے سے
ہے عياں يورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتی حق کا زمانے ميں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے

ہے جو ہنگامہ بپا يورش بلغاری کا
غافلوں کے ليے پيغام ہے بيداری کا
تو سمجھتا ہے يہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ايثار کا، خود داری کا

کيوں ہراساں ہے صہيل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

چشم اقوام سے مخفی ہے حقيقت تيری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تيری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تيری
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تيری

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نور توحيد کا اتمام ابھی باقی ہے

مثل بو قيد ہے غنچے ميں، پريشاں ہوجا
رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا
ہے تنک مايہ تو ذرے سے بياباں ہوجا
نغمہ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہوجا

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر ميں اسم محمد سے اجالا کر دے

ہو نہ يہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر ميں کليوں کا تبسم بھی نہ ہو
يہ نہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزم توحيد بھی دنيا ميں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

خيمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت ميں، دامن کہسار ميں، ميدان ميں ہے
بحر ميں، موج کی آغوش ميں، طوفان ميں ہے
چين کے شہر، مراقش کے بيابان ميں ہے
اور پوشيدہ مسلمان کے ايمان ميں ہے

چشم اقوام يہ نظارہ ابد تک ديکھے
رفعت شان 'رفعنالک ذکرک' ديکھے

مردم چشم زميں يعني وہ کالی دنيا
وہ تمھارے شہدا پالنے والی دنيا
گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنيا
عشق والے جسے کہتے ہيں بلالی دنيا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور ميں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تيری سپر، عشق ہے شمشير تری
مرے درويش! خلافت ہے جہاں گير تری
ماسوی اللہ کے ليے آگ ہے تکبير تری
تو مسلماں ہو تو تقدير ہے تدبير تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تيرے ہيں
يہ جہاں چيز ہے کيا، لوح و قلم تيرے ہيں

No comments:

Post a Comment