نہ ہو طغيان مشتاقی تو ميں رہتا نہيں باقی
نہ ہو طغيان مشتاقی تو ميں رہتا نہيں باقی
کہ ميری زندگی کيا ہے ، يہی طغيان مشتاقی
مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل ميں ہے شايد کوئی درد آشنا باقی
وہ آتش آج بھی تيرا نشيمن پھونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تيری تو پھر کيا شکوۂ ساقی
نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی
دلوں ميں ولولے آفاق گيری کے نہيں اٹھتے
نگاہوں ميں اگر پيدا نہ ہو انداز آفاقی
خزاں ميں بھی کب آسکتا تھا ميں صياد کی زد ميں
مری غماز تھی شاخ نشيمن کی کم اوراقی
الٹ جائيں گی تدبيريں ، بدل جائيں گی تقديريں
حقيقت ہے ، نہيں ميرے تخيل کی يہ خلاقی
نہ ہو طغيان مشتاقی تو ميں رہتا نہيں باقی
کہ ميری زندگی کيا ہے ، يہی طغيان مشتاقی
مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل ميں ہے شايد کوئی درد آشنا باقی
وہ آتش آج بھی تيرا نشيمن پھونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تيری تو پھر کيا شکوۂ ساقی
نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی
دلوں ميں ولولے آفاق گيری کے نہيں اٹھتے
نگاہوں ميں اگر پيدا نہ ہو انداز آفاقی
خزاں ميں بھی کب آسکتا تھا ميں صياد کی زد ميں
مری غماز تھی شاخ نشيمن کی کم اوراقی
الٹ جائيں گی تدبيريں ، بدل جائيں گی تقديريں
حقيقت ہے ، نہيں ميرے تخيل کی يہ خلاقی
No comments:
Post a Comment