ضمير لالہ مے لعل سے ہوا لبريز
ضمير لالہ مے لعل سے ہوا لبريز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہيز
بچھائی ہے جو کہيں عشق نے بساط اپنی
کيا ہے اس نے فقيروں کو وارث پرويز
پرانے ہيں يہ ستارے ، فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہيے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخيز
کسے خبر ہے کہ ہنگامہ نشور ہے کيا
تری نگاہ کی گردش ہے ميری رستاخيز
نہ چھين لذت آہ سحر گہی مجھ سے
نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آميز
دل غميں کے موافق نہيں ہے موسم گل
صدائے مرغ چمن ہے بہت نشاط انگيز
حديث بے خبراں ہے ، تو با زمانہ بساز
زمانہ با تو نسازد ، تو با زمانہ ستيز
ضمير لالہ مے لعل سے ہوا لبريز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہيز
بچھائی ہے جو کہيں عشق نے بساط اپنی
کيا ہے اس نے فقيروں کو وارث پرويز
پرانے ہيں يہ ستارے ، فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہيے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخيز
کسے خبر ہے کہ ہنگامہ نشور ہے کيا
تری نگاہ کی گردش ہے ميری رستاخيز
نہ چھين لذت آہ سحر گہی مجھ سے
نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آميز
دل غميں کے موافق نہيں ہے موسم گل
صدائے مرغ چمن ہے بہت نشاط انگيز
حديث بے خبراں ہے ، تو با زمانہ بساز
زمانہ با تو نسازد ، تو با زمانہ ستيز
No comments:
Post a Comment