کہوں کيا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے
مرے بازار کی رونق ہی سودائے زياں تک ہے
وہ مے کش ہوں فروغ مے سے خود گلزار بن جاؤں
ہوائے گل فراق ساقی نامہرباں تک ہے
چمن افروز ہے صياد ميری خوشنوائی تک
رہی بجلی کی بے تابی ، سو ميرے آشياں تک ہے
وہ مشت خاک ہوں ، فيض پريشانی سے صحرا ہوں
نہ پوچھو ميری وسعت کی ، زميں سے آ سماں تک ہے
جرس ہوں ، نالہ خوابيدہ ہے ميرے ہر رگ و پے ميں
يہ خاموشی مری وقت رحيل کارواں تک ہے
سکون دل سے سامان کشود کار پيدا کر
کہ عقدہ خاطر گرداب کا آب رواں تک ہے
چمن زار محبت ميں خموشی موت ہے بلبل!
يہاں کی زندگی پابندی رسم فغاں تک ہے
جوانی ہے تو ذوق ديد بھی ، لطف تمنا بھی
ہمارے گھر کی آبادی قيام ميہماں تک ہے
زمانے بھر ميں رسوا ہوں مگر اے وائے نادانی
سمجھتا ہوں کہ ميرا عشق ميرے رازداں تک ہے
No comments:
Post a Comment